جمعرات، 28 اگست، 2025

(ام غوث نام رکھنا کیساہے؟)

 


  (ام غوث نام رکھنا کیساہے؟)

(الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اُمّ غوث نام رکھنا کیسا ہے؟ اور اس کا مطلب بھی بیان فرما دیں۔

سائل: غلام غوث، انڈیا)

باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: لڑکی کا نام ”اُمّ غوث“ رکھنا جائز ہے، اور اس کا مطلب ہے ”غوث والی“ یعنی غوث سے تعلق رکھنے والی، جیسے ’’أبو هریرة‘‘ کا معنی ہے ’’بلی والا‘‘ اور ’’أبو تراب‘‘ کا معنی ہے ’’مٹی والا‘‘۔ یہ نام اگرچہ تعریف کے اعتبار سے کُنْیَت ہے، کیونکہ جو نام ”اَبْ“، ”اُمْ“، ”اِبْن“ یا ”بِنْت“ سے شروع ہو اُسے کنیت کہا جاتا ہے۔ چنانچہ علامہ سیّد شریف جرجانی حنفی متوفی ۸۱۶ھ لکھتے ہیں: الكنية: ما صدر بأب أو أم أو ابن أو بنت. (کتاب التعریفات، ص ۱۸۷)

   لیکن کنیت کو بطور نام رکھنا بھی جائز ہے۔ چنانچہ علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی ۸۵۵ھ لکھتے ہیں: كثير من الأسماء المصدرة بالأب أو الأم لم يقصد بها الكنية، وإنما يقصد بها إما العلم وإما اللقب ولا يقصد بها الكنية۔ (عمدۃ القاری، ۲۲/۲۱۸)

یعنی، بہت سے نام ایسے ہیں جو ”اَبْ“ یا ”اُمْ‘‘ سے شروع ہوتے ہیں لیکن ان سے کنیت مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس سے یا تو محض نام مقصود ہوتا ہے یا لقب، اس سے کنیت مراد نہیں ہوتی۔

   رہا یہ کہ غوث اور دیگر صالحین کی طرف نسبت کرتے ہوئے نام رکھنا، تو یہ بھی درست ہے، جیسے غلام غوث وغیرہ۔ چنانچہ امام اہلسنّت امام احمد رضا خان حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں: غلام علی، غلام حسین، غلام غوث، غلام جیلانی اور ان کے امثال تمام نام جن میں اسمائے محبانِ خدا کی طرف اضافت لفظ غلام ہوں سب کاجواز بھی قطعاً بدیہی (یعنی بہت واضح) ہے۔ فقیر غفر اللہ تعالیٰ لہُ نے اپنے فتاوٰی میں ان ناموں پر ایک فتویٰ قدرے مفصل لکھا اور قرآن وحدیث اور خود پیشوایانِ وہابیہ کے اقوال سے ان کا جواز ثابت کیا۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۴/۶۹۱)والله تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان، کراچی

پیر،۳۰/صفر، ۱۴۴۷ھ۔۲۵/اگست، ۲۰۲۵م




ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only